Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

نامعلوم موسم بے حد حسین تھا یا اس کے اندر خوشیوں کی ایسی برسات ہو رہی تھی کہ خوامخواہ ہی اس کے لب مسکرا رہے تھے  آنکھوں میں مستیاں بھر گئی تھیں  جن راستوں پر وہ سنبھل سنبھل کر چلا کرتی تھی۔

آج اس کا دل چاہ رہام تھا وہ کسی مست ہرنی کی مانند اٹھلاتی چھلانگیں لگاتی ہوئی گھر پہنچے اور سب کو اطلاع کر دے کہ وہ آج سے ایک لکھ پتی لڑکی بن گئی ہے۔

زمین کے ایک بوسیدہ ٹکڑے پر رہ کر اس نے آسمان کو چھو لیا ہے اب خواہشوں کی تمام تتلیاں  آرزوؤں کے سارے جگنو اس کی مٹھیوں میں بند ہو چکے ہیں۔

اب لاحاصل بھی حاصل بن اٹھا ہے۔

اپنی تقدیر خود سنواری ہے اس نے  راستے پر چلتے ہوئے چونک کر دائیں ہاتھ کی انگلی میں دمکتی ڈائمنڈ رنگ سرعت سے اتار کر پرس کی پاکٹ میں ڈالی تھی۔
(جاری ہے)

گھر قریب آتا جا رہا تھا اور وہ خود پر چھائی سرشاری پر قابو پانے کی سعی کرنے لگی تھی اور سوچ رہی تھی چند گھنٹوں قبل جب وہ ان ہی راہوں سے گزری تھی تو میں ماہ رخ فیض محمد تھی اور اب واپسی میں وہ مسز ماہ رخ ساخر خان تھی۔

صبح تک ایک غریب سبزی فروش کی بیٹی تھی اور اب شام کے اس پہر ایک کروڑ پتی شخص کی بیوی۔ بہت خوش تھا ساحر اس سے کورٹ میرج کرکے وہ جب کورٹ سے باہر آئے تو اس نے محبت بھرے لہجے میں کہا تھا۔

”آج میں دولت مند ہو گیا ہوں رخ!“

”ارے دولت مند تو آپ پہلے سے ہی ہیں۔“

”اونہو  نوکر چاکر  گاڑیاں  بنگلے اور ہیوی اسٹرونگ بینک بیلنس لوگ ان مادی چیزوں کو سمجھتے ہیں جب کہ میری نگاہ میں محبت سب سے بڑی دولت ہے اور آج تمہارے روپ میں وہ دولت میں لے پالی ہے۔
“ اس کے لہجے میں سچی محبت کی خوشبو تھی۔

”بہت جلد ہمارے ایبروٹ جانے کا بندوبست ہو جائے گا اور ہم چلے جائیں گے اس وقت تک ہم اسی طرح ملتے رہیں گے جس طرح میرڈ ہونے سے پہلے ملتے رہے ہیں۔ وہاں جا کر ہم اپنی نیو لائف شروع کریں گے۔“ اس نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا اور وہ سر ہلا کر رہ گئی  مسرت سے اس کا چہرہ گلنار ہو رہا تھا۔

ساحر کا رویہ بے حد محتاط ہو گیا تھا وہ حسب عادت کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں جانے کے بجائے اسے اس سڑک پر ڈراپ کر گیا تھا جس پر وہ اترتی تھی۔

”کتنا ٹائم لگے گا ہمیں یہاں سے جانے میں؟ میرا مطلب ہے ڈاکو منٹس ریڈی ہونے میں؟“ کار سے اترنے سے قبل وہ ساحر سے مخاطب ہوئی تھی۔

”بہت جلد ریڈی کروا لوں گا۔“

”پہلے ہم کہاں جائیں گے  کس کنٹری میں؟“

”جہاں تم کہو گی۔“ وہ مسکرایا۔

”دبئی!“ اس نے دلکشی سے مسکراتے ہوئے کہا۔

###

”مرو… ٹھنڈ پڑ گئی تمہارے دل میں؟ ایک تو اتنی مشکل سے موقع ملا راحیل سے ملنے کا اور وہ بھی تمہاری وجہ سے برباد ہو گیا ہے  بہت ذلیل ہو تم۔
“ کمرے میں آتے ہی جہاں عادلہ نے سکون کا سانس لیا وہیں عائزہ کا حکم و غصے سے براحال تھا  وہ اسے سخت نظروں سے گھورتے ہوئے بولی۔

”ذلیل میں نہیں تم ہو  جو اس جیسے آوارہ شخص کیلئے مری جا رہی ہو  جس کی نگاہوں میں تمہارے لئے کوئی وقعت نہیں ہے۔“

”کیا وقعت نہیں ہے  بتاؤ تو سہی؟“

”بڑی شوما رہی تھیں  وہ تمہارے لئے کوکنگ کر رہا ہے  تمہاری فیورٹ ڈشسز تیار رہا ہے  ہا ہا ہا …“ کارپیٹ پر بیٹھ کر سینڈلز کے اسٹرپس کھولتی عادلہ نے ہنس کر کہا۔

”کوکنگ کرنا تو درکنار اس نے تو یہ بھی یاد رکھنا گوارا نہ کیا تم اس سے ملنے آ رہی ہو  سو رہا تھا وہ اور اسی رف حلیے میں وہ ہمارے سامنے آ گیا  بغیر کسی شرمندگی کے ہونہہ…“

”اس کے اسی رف حلیے پر لاکھوں لڑکیاں مرتی ہیں۔“ وہ بالوں میں کلپ لگاتی ہوئی فخریہ انداز میں بولی۔

”اچھا! وہ سب بھی تمہاری طرح عقل کی اندھی ہوں گی یا محبت کرنے کیلئے کسی اچھے اسمارٹ لڑکے نے لفٹ نہیں کرائی ہو گی۔
بے چاریوں کو۔“ وہ ریک میں سینڈل رکھتے ہوئے ہنوز اسی لہجے میں بولی۔

”اوہ کہہ تو ایسے رہی ہو گویا تم سے اظہار محبت کرنے کیلئے تو ہینڈسم لڑکوں کی لائن لگی رہتی ہے گیٹ پر۔“ عائزہ کے اس طنز پر ان میں سخت جنگ چھڑ جاتی اگر عادلہ دادی جان کو اس طرف آتے ہوئے کھڑکی سے نہ دیکھ لیتی اس نے سرعت سے عائزہ کو اشارے سے ان کی آمد کا بتایا تھا۔

”کیا ہو رہا ہے؟ دادی جان اندر آ کر گویا ہوئی تھیں۔

”کچھ نہیں دادی جان! ہم باتیں کر رہے تھے۔“ وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے گویا ہوئی تھیں۔

”جنگلی بلیوں کی طرح غرانے کی آوازیں باہر تک آ رہی تھیں  تم دونوں کی اور تم کہہ رہی ہو باتیں کر رہی تھیں؟“ وہ ان کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوئی تھیں۔

”آپ کو تو معلوم ہی ہے دادی جان  یہ عائزہ کو حلق پھاڑ کر باتیں کرنے کی عادت ہے۔
بس یہی ہوا ہے۔“

”آواز تو تمہاری بھی اتنی ہی بلند تھی مگر سمجھ نہیں آیا کس بات پر چیں چیں  میں میں ہو رہی تھی تم میں۔“

”تھینک گاڈ! آپ کی سمجھ میں ہماری باتیں نہیں آئی ہیں۔“ عادلہ نے گہری سانس لی تھی۔

”سوری دادی جان! آئندہ ہم اتنی بلند آواز میں بات نہیں کریں گے۔“ ان دونوں کے انداز میں فرمانبرداری تھی۔

”بچیاں اونچی آوازوں میں باتیں کرتی ہوں اچھی لگتی بھی نہیں ہیں  چہرے کی نرمی ختم ہو جاتی ہے۔

”آپ بیٹھیں نا دادی جان!“ عائز نے کہا۔

”نہیں میں ڈرائیور سے کہنے جا رہی ہوں وہ پری کو پارٹی سے لے آئے وہ جاتے جاتے بھی کہہ کر گئی تھی کہ اس کو وہاں سے بلوا لوں اس کا دل نہیں لگے گا وہاں۔“ وہ کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھیں۔ ان کے جاتے ہی وہ گہرے سانس لیتی ہوئی ڈھیر ہوئی تھیں۔

”سوچو دادی جان اگر ہماری باتیں سن لیتیں تو کیا ہوتا ہمارا؟ پاپا  طغرل اور دادی جان سب ہمارا کیا حال کرتے؟“ عادلہ بے حد خوف زدہ تھی۔

”دادی کے بہرے پن نے ہماری بچت کرا دی ہے اسی لئے تم سے کہتی ہوں  ہر وقت بکواس مت کیا کرو  دیواروں کے علاوہ دروازے  کھڑکیوں کے بھی کاتے ہیں۔“ عائزہ کے لہجے میں حد درجہ سنجیدگی تھی۔

”اوکے اب چلو کچن میں پری کے آنے سے پہلے کچھ کھا پی لیتے ہیں  تمہارے اس راحیل کے چکر میں کچھ کھایا نہیں ہے۔ اب تو بھوک برداشت سے باہر ہونے لگی ہے۔

”اوہ رئیلی! کیا کہا تم نے میرا راحیل؟“ وہ خوشی سے جھوم کر استفسار کر رہی تھی۔”تم بیٹھو  میں اپنے ہاتھوں سے تمہیں کھانا لاکر کھلاؤں گی۔“

###

”اماں جان! بہت خاموشی چھائی ہوئی ہے گھر میں  کوئی نہیں ہے سوائے آپ کے؟“مذنہ ان کے قریب بیٹھتی ہوئی استفسار کرنے لگی تھیں۔

”عادلہ اور عائزہ ہیں اپنے کمرے میں  ابھی کچھ دیر پہلے تو ان کی آوازیں آ رہی تھیں  میں ڈانٹ کر آئی ہوں تو خاموش ہوئی ہیں۔
صباحت اور فیاض عابدی کے ہاں پارٹی میں گئے ہیں ساتھ۔ آج تو پری کو بھی لے گیا ہے فیاض۔“ ان کا پرجوش لہجہ بتا رہا تھا وہ بیٹے کے اس عمل سے بہت خوش ہیں۔

”ماشاء اللہ! دیر آید درست آید۔ دیر سے ہی سہی فیاض کو بیٹھی کا خیال تو آیا  بہت خوشی ہوئی یہ سن کر۔“

”صباحت میں سوتیلے پن کر زہر نہ بھرا ہوا ہوتا تو بہت عرصہ قبل ہی پری کو اس کی حیثیت مل گئی ہوتی مگر…“ اماں نے نیم دراز ہوتے ہوئے افسردگی سے کہا۔

”تم نے خود دیکھا بہو! اس نے سوتیلے پن کے جلاپے میں پری کو کس طرح رسوا کرنا چاہا تھا؟ کس قدر بے ہودگی سے اس نے اس بچی پر الزامات کی بھرمار کی تھی؟“

”میں شروع سے صباحت کے مزاج سے واقف ہوں میں نے اسی لئے اس کی کسی بات پر اعتبار نہیں کیا تھا اماں جان! اور پھر ہم اپنے بچوں کے کردار سے واقف ہوتے ہیں میں نے اپنے بچوں کی تربیت بہت توجہ اور احتیاط سے کی ہے۔
“ مدبرانہ لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔

”تمہاری تربیت تو نظر آ رہی ہے بہو! فخر ہوتا ہے مجھے جب بھی طغرل کو دیکھتی ہوں  ایسی تربیت میں نے پری کی بھی کی ہے آج کل کی چلتر باز لڑکیوں جیسی چالاکی نہیں ہے پری میں۔“ جو وہ کہنا چاہ رہی تھی مذنہ سمجھ رہی تھیں مگر وہ بھی ان سے سیدھے سبھاؤ بات کرنے کی ہمت نہ کر پا رہی تھیں سو مسکرا کر رسانیت سے گویا ہوئیں۔

”یہ بات تو پرفیکٹ ہے اماں! پری جس گھر میں بھی جائے گی اس گھر کی خوش قسمتی ہو گی۔“ ان کی بات پر اماں کا چہرہ گہری سنجیدگی کی لپیٹ میں آ گیا۔ چند لمحے وہ کچھ کہہ نہ سکی تھیں ایک عجیب بوجھل سی خاموشی ہاں وہاں پھیل گئی تھی جس کو انہوں نے ہی توڑا تھا۔

”پری اور طغرل کا رشتہ کیوں نہیں جڑ سکتا؟ پری تمہاری بہو کیوں نہیں بن سکتی؟ جب کہ یہ طغرل کی خواہش بھی ہے  وہ پری سے شادی کرنا چاہتا ہے۔“

”میں طغرل کے مزاج سے واقف ہوں اماں جان! وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ نہیں کرتا  اس کی پسند اس کی خواہشیں بہت تیزی سے بدلتی ہیں  وہ جس کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے تو پھر اس سے زیادہ تیزی سے وہ پلٹتا ہے اور مڑ کر بھی نہیں دیکھتا ہے۔
“ وہ سادگی سے کہہ رہی تھیں۔

”وہ مستقل مزاج نہیں ہے اور میں نہیں چاہتی کسی لڑکی کی زندگی خراب ہو اور وہ بھی پری جیسی لڑکی کی  جس نے زندگی کی خوبصورتی کو ابھی تک محسوس نہیں کیا ہے۔“

”مجھے معاف کر دیجئے گا اماں جان! مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میں یہ سب کہہ رہی ہوں مگر یقین مانیں  میری بات میں ذرا بھی جھوٹ و بناوٹ نہیں ہے۔“ آگے بڑھ کر ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے نم لہجے میں کہا۔

”کیوں معافی مانگتی ہو بہو! تم ماں ہو  طغرل کے مزاج کو مجھ سے بہتر جانتی ہو  تمہاری باتوں پر مجھے یقین ہے تم میرے دل کے قریب ہو  ہمیشہ تم نے میری عزت کی ہے بے حد محبت کرتی ہو  یہ معلوم ہے مجھے۔ اسی محبت نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں تم سے اپنے دل کی خواہش ظاہر کروں۔“ انہوں نے بیٹھتے ہوئے مذنہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

”لیکن… تمہاری بات میں بھی وزن ہے طغرل متلون مزاج ہے لا ابالی پن اور غیر سنجیدگی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے  ٹھیک ہے بس اس بات کو یہیں ختم کرنا ہی بہتر ہے اب نہ تم کسی کو بتانا اور نہ میں کسی سے ذکر کروں گی۔“ وہ گہری سانس بھر کر گویا ہوئی تھیں ان کی آنکھوں میں ملال تھا۔

   1
0 Comments